مستقیم اکثر پوچھے جانے والے سوالات

سونیری بینک لمیٹڈ نے اپنے اسلامک بینکنگ آپریشن کا آغاز سال2004ء میں کیا۔ فی الوقت بینک سولہ اسلامک بینکنگ برانچز آپریٹ کررہاہے۔

سونیری ، مستقیم اسلامک بینکنگ کی طرف سے واجباتی (liabilities)طرز کی کون سی مصنوعات پیش کی جاتی ہیں؟
فی الوقت سونیری ، مستقیم اسلامک بینکنگ اپنے کسٹمرز کو شریعہ سے 100فی صد ہم آہنگ ڈپازٹ پروڈکٹس کی وسیع رینج پیش کررہاہے۔ یہ پروڈکٹس درج ذیل ہیں:

  • سونیری۔ راحت بزنس اکاؤنٹ
  • سونیری۔ آسان اکاؤنٹ
  • سونیری۔ بچت سیونگز اکاؤنٹ
  • سونیری ۔ منافع سیونگز اکاؤنٹ
  • سونیری۔ میعادی ٹرم ڈپازٹ
  • سونیری ۔ جاری (کرنٹ ) اکاؤنٹ ( مقامی اور غیرملکی کرنسیوں کے لیے)

سونیری ، مستقیم اسلامک بینکنگ کی طرف سے فنانسنگ طرز کی کون سی مصنوعات پیش کی جاتی ہیں؟
سونیری ، مستقیم اسلامک بینکنگ کی فنانسنگ پروڈکٹس درج ذیل ہیں:

  • مرابحہ
  • کمرشل اجارہۂ
  • کنزیومر اجارہ
  • سلام
  • استصناع
  • مشارکہ متناقصہ
  • اسلامک ایکسپورٹ ریفانس
  • لیٹر آف کریڈٹ اور گارنٹیز

کیاسونیری ، مستقیم اسلامک بینکنگ تاریخ سے ادائیگی کی صورت میں جرمانہ وصول کرتاہے؟
سونیری مستقیم تاخیر سے ادائیگی کی صورت میں کوئی جرمانہ وصول نہیں کرتا جیسا کہ شریعہ میں اس کی اجازت نہیں ہے ، کیوں کہ یہ سود وصول کرنے کے زمرے میں آتاہے۔تاہم قرض حاصل کرنے والے کی طرف سے برطرف ادائیگی یقینی بنانے کے لیے قرض دہندہ نادہندگی کی صورت میں کچھ رقم عطیے میں دینے کا وعدہ حاصل کرسکتاہے۔یہ حقیقت ایک قسم کا یامین (عہد) ہے جو خود کونادہندگی سے دور رکھنے کے لیے خود عائد کردہ ایک جرمانہ ہے۔سونیری مستقیم میں یہ طریقہ کار اختیار کیا جاتاہے اور اس کا واحد مقصد کسٹمرز کو اپنے واجبات وقت پر ادا کرنے پر آمادہ کرنا ہے۔بطور عطیہ وصول ہونے والی رقم خیراتی اداروں میں تقسیم کردی جاتی ہے اور بینک کی آمدنی کا حصہ نہیں بنتی۔

اسلامک بینکنگ اور فنانسنگ کے اہم طریقے کیا ہیں؟
اسلامک بینکنگ اور فنانس کے بنیادی طریقے درج ذیل ہیں:

مرابحہ
اس کا لفظی مطلب باہم اتفاق شدہ منافع پر فروخت ہے۔تکنیکی اعتبار سے یہ فروخت کا ایک معاہدہ ہے جس میں فروخت کنندہ اپنی لاگت اور منافع کا اعلان کرتاہے۔اسلامی بینکوں نے اسے فنانسنگ کے ایک طریقے کے طور پر اختیار کیاہے۔
فنانسنگ کی ایک تکنیک کے طور پر اس میں کلائنٹ کی طرف سے بینک سے اپنے لیے مخصوص سامان کی خریداری کی درخواست کی جاتی ہے۔ بینک لاگت کے اوپر ایک خاص منافع کے لیے یہ کردیتاہے جس کا تعین پیشگی کیا جاتاہے۔

اجارہ
اجارہ ایک معاہدہ ہے جس میں مخصوص سامان کی افادیت یا افراد کی خدمات پہلے سے طے شدہ سوچ کے مقابل منتقل کردی جاتی ہے۔ اس کی مثال کچھ معاوضے کے مقابل ایک کار یا گھر کرایے پر لیناہے۔

اجارہ والاقتناء
ایک معاہدہ جس کے تحت ایک اسلامی بینک کلائنٹ کو بینک یا کلائنٹ کی طرف سے ایک یک طرفہ عہد کے ساتھ ایک منظور شدہ کرایے کے مقابل ایکوپمنٹ، بلڈنگ یا دیگر اثاثے فراہم کرتاہے کہ لیز کی مدت کے خاتمے پر اثاثہ لیزیافتہ کومنتقل ہوجائے گا۔یہ عہد یا وعدہ لیز کے معاہدے کا لازمی جزونہیں بنتا کہ اسے مشروط بنادے۔کرایے اور اس کے ساتھ ساتھ خریداری کی قیمت اس طرح طے کی جاتی ہیں کہ بینک لیز کی مدت کے دوران منافع کے ساتھ اصل رقم بھی واپس وصول کرلیتاہے۔

مساومہ
مساومہ فروخت کی ایک عمومی اور باقاعدہ قسم ہے جس میں فروخت ہونے والی اجناس کی قیمت پر فروخت کنندہ اور خریدار کے درمیان، فریق اول کی طرف سے اداکردہ قیمت یا برداشت کی گئی لاگت کاکوئی حوالہ دیے بغیرسودا بازی کی جاتی ہے۔چناں چہ یہ قیمت کے تعین کے کلیے کے حوالے سے مرابحہ سے مختلف ہے۔دونوں فریق قیمت پر گفت وشنید کرتے ہیں۔مرابحہ سے تعلق تمام دیگر شرائط مساومہ کے لیے بھی کارآمد ہیں۔مساومہ کا استعمال ایسی صورت میں کیا جاتاہے جہاں فروخت کنندہ اس جنس کی قیمت کا بالکل درست تعین کرنے کے قابل نہیں ہوتا جسے وہ فروخت کے لیے پیش کررہاہے۔

استصناع
یہ مینوفیکچرنگ مصنوعات اور اجناس کے لیے ایک معاہدہ جاتی سمجھوتاہے جو مستقبل میں ڈلیوری یا مستقبل میں ادائیگی اورمستقبل میں ڈلیوری کے لیے پیشگی کیش ادائیگی ممکن بناتاہے۔استصناع گھروں ، پلانٹس، پروجیکٹس اور پلوں ، سڑکوں اور شاہراہوں کی تیاری یا تعمیرکے لیے فنانسنگ کی سہولت کی فراہمی کے لیے استعمال کیا جاسکتاہے۔

بیع مؤجل
اس کا لفظی طلب اعتباری فروخت(credit sale)ہے ۔تکنیکی اعتبار سے یہ اسلامی بینکوں کی طرف سے اختیار کردہ فنانسنگ کی ایک تکنیک ہے جومرابحہ مؤجل کی شکل اختیار کرتاہے۔یہ ایک معاہدہ ہے جس میں بینک اپنی قیمتِ خرید پر منافع کماتاہے اور خریدار کو جنس کی قیمت مستقبل کی کسی تاریخ پر یک مشت یا قسطوں میں ادا کرنے کا موقع فراہم کرتاہے۔اس میں باہمی منظورکردہ جنس کی لاگت اور منافع کی حد کاواضح تذکرہ کرنا لازم ہوتاہے۔ایسے لین دین میں جنس کی طے کردہ قیمت موقع کی قیمت کے مساوی یاموقع کی قیمت سے زیادہ یا کم ہوسکتی ہے۔

مضاربہ
پارٹنرشپ یعنی شراکت کی ایک قسم جہاں ایک پارٹی فنڈز فراہم کرتی ہے جب کہ دوسری مہارت اور انتظام وانصرام مہیا کرتی ہے۔ا س میں فریق ثانی کو مضارب کہا جاتاہے۔ کسی بھی جمع شدہ منافع میں دونوں فریق پہلے سے طے شدہ بنیاد پر شریک ہوتے ہیں جب کہ نقصان صرف سرمایہ فراہم کرنے والے کو برداشت کرنا پڑتاہے۔

مشارکہ
مشارکہ کامطلب فریقوں کی باہمی رضامندی سے ایک معاہدے کے تحت مشترکہ کاروبار میں منافع اور نقصان میں شمولیت کے لیے قائم ہونے والا ایک رشتہ ہے۔یہ ایک معاہدہ ہے جس کے تحت اسلامی بینک فنڈز فراہم کرتاہے جو کاروبار ی ادارے اور دیگر کے ساتھ ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ سرمایہ فراہم کرانے والے تمام فریق انتظام و انصرام میں شمولیت کے حق دار ہوتے ہیں لیکن ان کے لیے ایسا کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ منافع پارٹنرز کے درمیان پہلے سے اقرار شدہ شرحوں سے تقسیم کیا جاتاہے ، جب کہ نقصان ہر پارٹنر کو متعلقہ شامل کردہ سرمایے کے تناسب کے عین مطابق برداشت کرنا پڑتاہے۔

بیع سلم
سلم کا مطلب ایک معاہدہ ہے جس میں ایسے سامان کے لیے پیشگی ادائیگی کی جاتی ہے جس کی ڈلیوری بعد میں ہونی ہوتی ہے۔ فروخت کنندہ معاہدے کے وقت ایک پیشگی رقم کی مکمل ادائیگی کے بدلے بعض مخصوص سامان کی مستقبل کی کسی تاریخ پر خریدار کو فراہمی کا عہد کرتاہے۔یہ ضروری ہے کہ خریدی جانے والی جنس کے معیاد کی پوری طرح وضاحت کی جائے تاکہ ایسا کوئی ابہام باقی نہ رہے جو تنازع کا سبب بن سکے ۔اس فروخت کو اشیاکے لیے استعمال کیاجاسکتاہے او ریہ سونا، چاندی یا کرنسیاں نہیں ہوسکتیں۔اس کے علاوہ بیع سلم لگ بھگ ہر چیز کا احاطہ کرتاہے جو مقدار ،معیاراور ہنرمندی کی حتمی تشریح کی اہلیت رکھتاہے۔

اسلامی بینکاری اور روایتی بینکاری میں کیا فرق ہے؟
روایتی بینکاری اور اسلامی بینکاری کے درمیان فرق کرنے والے مرکزی نکات درج ذیل ہیں:

نمبرشمار روایتی بینکار ی نمبرشمار اسلامی بینکنگ
-1 رقم تبادلے کے ایک ذریعے اور قدر کے ایک ذخیرے کے علاوہ ایک جنس بھی ہے ۔ چناں چہ اسے اس کی اصل قیمت سے زیادہ مالیت پر فروخت بھی کیا جاسکتاہے اور اسے کرایے پر بھی دیا جاسکتاہے۔ -1 رقم تبادلے کے ایک ذریعے اور قدر کے ایک ذخیرے کیطور پر استعمال کی جاتی ہے تاہم یہ کوئی جنس نہیں ہے ۔لہٰذا اسے اس کی اصل قیمت سے زیادہ مالیت پر فروخت نہیں کیا جاسکتا اور اگر مالیت یکساں ہو تو اسے کرایے پر نہیں دیا جاسکتا۔
-2 وقت کی قدروقیمت (ٹائم ویلیو) سرمایے پر سود وصول کرنے لیے بنیادہے۔ -2 سامان کی تجارت یا خدمت کی فراہمی پر چارجنگ منافع کمانے کے لیے بنیاد ہے۔
-3 سود وصول کیا جاتاہے خواہ ادارہ بینک کے فنڈز استعمال کرنے ہوئے نقصان سے دوچار ہوجائے ۔چناں چہ یہ نفع نقصان میں شراکت پر مبنی نہیں ہے۔اسلامی بینک نفع نقصان میں شراکت کی بنیاد پر کام کرتاہے ۔ -3 کاروبار کے نقصان سے دوچار ہونے کی صورت میں استعمال شدہ فنانسنگ کے طریقے (مضاربہ ، مشارکہ) کی بنیاد پر بینک ان نقصانات میں شریک ہوگا۔
-4 کیش فنانس، رننگ فنانس یاکیپیٹل فنانس تقسیم کرتے ہوئے سامان یا خدمات کے تبادلے کے لیے کوئی معاہدہ نہیں کیا جاتا۔. -4 مرابحہ ، سلم اور استصناع کنٹریکٹس کے تحت فنڈز تقسیم کرتے ہوئے سامان اور خدمات کے تبادلے کے لیے معاہدوں پر عمل درآمد لازم ہے۔
-5 روایتی بینکس رقم کو ایک جنس کے طور پر استعمال کرتے ہیں جو افراطِ زر کا سبب بن سکتاہے ۔ -5 اسلامی بینکنگ تجارت سے متعلق سرگرمیوں کے استعمال کے ذریعے معاشی نظام کے حقیقی شعبوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کا رجحان رکھتی ہے۔

اسلامی بینکاری اور روایتی بینکاری کا حتمی نتیجہ ایک ہی ہے۔ وہ ایک جیسی کیوں لگتی ہیں؟
ٹرانزیکشن کی موزونیت کا انحصارحتمی نتیجے پر نہیں ہے بلکہ اس کے بجائے اختتام تک پہنچنے کے طریقہ کاراور سرگرمیوں پر ہے۔ اگر ٹرانزیکشن اسلامی شریعہ کے اصولوں کے مطابق کی گئی ہو تو یہ حلال ہے خواہ پروڈکٹ کا حتمی نتیجہ روایتی بینکاری کی پروڈکٹ کے مطابق ہو۔مثال کے طور پر امریکا اور پاکستان میں مکڈونلڈ برگر ایک جیسے دکھائی دے سکتے ہیں، ان کی خوش بو اور ذائقہ ایک جیسا ہوسکتاہے لیکن مویشیوں کو ذبح کرنے کی اسلامی ہدایات کی تعمیل کی وجہ سے پہلے والاحرام ہے اور دوسرا حرام۔ اسی طرح اگر کوئی شخص بھوک محسوس کررہاہوتو وہ کھانے کے لیے روٹی چوری کرسکتا ہے اور اس کے بجائے روٹی خرید بھی سکتاہے۔ظاہری حتمی نتیجہ یکساں ہوگا لیکن ان میں سے ایک شریعت میں جائز ہے اور دوسرا ممنوع۔ یہی کچھ اسلامی او ر روایتی بینکاری کے لیے بھی سچ ہے۔چناں چہ یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتاہے کہ نتیجہ نہیں بلکہ اس کے لیے کی جانے والی ٹرانزیکشن کسی چیز کو حلال (جائز) یا حرام(ممنوع) بناتی ہے۔اسلامی بینک بظاہر روایتی بینک جیسے نظرآسکتے ہیں تاہم اسلامی بینکوں کے تشکیل کردہ معاہدے اور پروڈکٹس روایتی بینک سے بالکل مختلف ہوتی ہیں۔قرآن مجید کی آیت2:275میں اللہ رب العزت نے تجارت اور سود میں بظاہر یکسانیت کا جواب واضح طور پر مطلع کرتے ہوئے دیا ہے کہ اس نے تجارت کی اجازت دی ہے اور ربا کو ممنوع کیاہے (اگرچہ وہ کسی کو ایک جیسے دکھائی دے سکتے ہیں۔)